کالم:سچ کی تلاش سردار طیب کے ساتھ
بہت سمارٹلی کھیل گیا کپتان، کیسے، بتاتا ھوں،
کل آخری ڈیڈ لائن تھی، قومی اسمبلی کا انتہائی اھم اجلاس جان بوجھ کے آخری وقت تک کھینچا گیا، آخری بال، آخری چال، آخری گھنٹہ اور آخری پتہ، سب پریشان تھے کیا ھونے جا رھا ھے،
اعصاب کی جنگ تھی، سارا دن گزر گیا بات آخری لمحوں تک پہنچ گئی، ٹھیکیداروں کے اعصاب جواب دینے لگے انہیں ساری محنت ضائع ھوتی ھوئی نظر ائی، جو اب تک پس پردہ چھپے بیٹھے تھے انہیں مجبوراً سامنے آنا پڑا، ایکسپوز ھونا پڑا، آخری گھنٹے میں سب ایکٹو ھو گئے، چھٹی کے دن آدھی رات کو عدالتیں کھل گئیں، منصفان ریاست جوک در جوک پہنچنے لگے، ساری اپوزیشن آدھی رات تک قومی اسمبلی میں بیٹھی رھی، وزیراعظم ھاؤس میں ہیلی کاپٹرز پہنچے، قیدیوں والی گاڑیاں پہنچیں، لا انفورسمنٹ حرکت میں آئیں اور سب کنٹرول کیا جانے لگا،
یہی وہ ٹائم تھا جس کیلئے کپتان نے اتنی لمبی اعصابی جنگ لڑی اتنی زیادہ محنت کی تھی، کپتان نے میڈیا کو بلایا، سوشل میڈیا پہ سب لائیو جا رھا تھا، اندر کی خبریں باھر آ رھی تھی، کپتان نے معنی خیز مسکراہٹ کیساتھ پوچھا، کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ھوا ھو، مطلب کوئی رہ تو نہیں گیا جو واضح طور پر قوم کے سامنے ایکسپوز نہ ھوا ھو، صحافیوں نے کہا جی نہیں،
وہ اٹھا، ڈائری اٹھائی اور وکٹری نشان بناتا ھوا اپنے گھر کی طرف روانہ ھو گیا، بظاہر ھار کے جا رھا تھا مگر حقیقت میں یہی اس کی جیت تھی، وہ سب پردہ نشینوں کے منہ سے نقاب نوچ کے جا رھا تھا، وہ سب کو بے نقاب کر کے جا رھا تھا، وہ قوم کو اصل مجرم دکھا کے جا رھا تھا، اس کا مقصد پورا ھوا، 75 سالوں سے پردے کے پیچھے بیٹھے اصل ہرکارے قوم کے سامنے ایکسپوز ھو چکے تھے،یہی اس کی جیت تھی، یہی اس کا ماسٹر اسٹروک تھا،
عمران خان۔۔۔ قوم تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی، تم امر ھو گئے، تم ھار کے بھی جیت گئے،
1,261