pakistan politics tosha khana 753

سخی ملک کے غریب حکمران

توشہ خانہ میں رکھے گئے تحائف ریاست کی ملکیت ہیں، لوٹ سیل کے بجائے نیلام کر کے 100%رقم قومی خزانہ میں جمع ہونی چاہئے
عوام کے ٹیکسوں سے منتخب نمائندوں کے ٹال ٹیکس معاف کرنے کے بجائے ٹیکس ادا کرنے والوں کو سہولیات دی جانی چاہئے
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعدسیاستدان اقتدار کی رسہ کشی میں اس قدر مصروف ہو گئے کہ ملک کے آئین اور عوام کے مسائل پر کوئی خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی۔ پہلا آئین 1956ء میں نافذ العمل ہوا مگر جلد ایوب خان کی بھینٹ چڑھ گیا، جنہوں نے 1962ء میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا، 1965ء کی پاک بھارت جنگ، پاکستان پیپلز پارٹی کا معرض وجود میں آنا اور 1971ء میں ملک کا دو لخت ہونا تقریباً ہر محب وطب پاکستانی کو یاد ہے۔ البتہ نئی نسل اسے اپنے انداز میں پیش کرتی ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود پاکستان ایک خوشحال ملک تھا۔ پے در پے دو جنگوں کے باوجود پاکستان کا شمار قرض دینے والے ملکوں میں ہوتا تھا۔1971ء کے بعد ایک نئے پاکستان کا سفر شروع ہوتا ہے جو آج تک کسی نہ کسی طرح جاری و ساری ہے۔ تب ملک ٹوٹ چکا تھا، جنگ کے نتائج بھیانک نکلے نوے ہزار فوجیوں کو قیدی بنایا جا چکا تھا۔ ملک میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم منتخب ہو چکے تھے۔ جنہوں نے قیدیوں کا مسئلہ حل کرایا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔ اٹیمی پروگرام جو 1958ء میں شروع ہو چکا تھا اسے باقاعدہ تیزی سے جاری رکھتے ہوئے اٹیم بم بنانے کا اعلان کیا۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی سر اٹھانے والے فتنہ مرزائیت کو کیفر کردار تک پہنچایا اور پارلیمنٹ آف پاکستان سے اس فتنہ کو غیر مسلم قرار دلوایا۔ غریب مزدور طبقہ کو پلاٹ دئیے گئے۔ جہاں بھٹو حکومت نے اچھے کام کئے وہاں کئی ایسے کام بھی تھے جن کے بعد میں نتائج اچھے نہ نکلے۔
1977ء کے انتخابات کے بعد سیاستدان آپس میں الجھ پڑے اور ایسے الجھے کہ بھٹو جیسے حکمران کو کھو بیٹھے اور گیارہ سال تک ایک فوجی حکومت کے تابع اس موقع کی تلاش میں بیٹھے رہے کہ جنرل ضیا ء الحق خود ہی اقتدار سے الگ ہو جائے۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے جس کے بعد ہلکی پھلکی جمہوریت کی امید جاگی مگر جس انداز میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کو الوداع کیا گیا اس کا خمیازہ کسی نہ کسی طرح میاں محمد نواز شریف کو آنے والے وقتوں میں بھگتنا پڑا۔ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کی واپسی ہوئی۔ جنرل ضیا الحق طیارہ حادثے میں چل بسے۔ پیپلز پارٹی مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی جبکہ مسلم لیگ پنجاب میں حکمران جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ پھر 12اکتوبر 1999تک یہی سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ نواز شریف دو تہائی اکثریت حاصل کر کے بھی حکومت کی باگ ڈور پانچ سال کے لئے نہ سنبھال سکے اور پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس دوران دونوں نواز شریف اور محترمہ بے نظر بھٹو کی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے جس کی وجہ سے ان کو معزول بھی کیا جاتا رہا۔ مگر عوام میں عمومی تاثر یہی گیا کہ انتقامی سیاست ہو رہی ہے۔ ہماری سادہ لوح عوام کو اپنی مظلومیت کا رونا رو کر دوبارہ اقتدار کی راہ ہموار کی جاتی رہی۔
پرویز مشرف دور قدرے مختلف دور ثابت ہوا ان دنوں عالمی حالات تیزی سے بدلے اور پاکستان کا کردار انتہائی اہم تو رہا مگر ہم ایک ایسی جنگ میں شامل ہو گئے جس میں نقصان صرف اور صرف پاکستان اور پاکستان کی عوام کا ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسی ہزار افراد شہید ہوئے۔ ملکی املاک کو بدترین نقصان پہنچا۔ سرمایہ کاروں نے پاکستان کے بجائے بنگلہ دیش کا رخ کیا۔ اس دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا مکروہ چہرہ تھا جو افغانستان سے ملحقہ سرحدوں سے دہشت گرد پاکستان بھیجتا رہا۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے جن میں ایف سی اور صوبائی پولیس لائق تحسین ہے جنہوں نے اس بدترین دہشت گردی کا جانوں پر کھیل کر مقابلہ کیا۔
بلا شبہ دہشت گردی کی جنگ میں جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہاں پیپلز پارٹی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت پر بھی خود کش حملوں میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ 2010ء تک کی سیاست میں جہاں ایک دوسرے پر مقدمے اور بہتان طرازی عروج پر رہی مگر سیاست کا حسن برقرار رہا۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی انٹری ہوئی۔ مینار پاکستان پر کامیاب جلسہ کے بعد تحریک انصاف کی ہوا چل پڑی۔ اور عمران خان نے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے سخت گیر موقف اپنایا۔ مخالفین پر الزام تراشی کی سیاست کو گالی گلوچ تک پہنچا دیا گیا۔ تحریک انصاف کے علاوہ ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو چور،ڈاکو کے القابات سے نوازہ اور یہ معمول دن رات جاری رہا۔ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل ملک میں ایک ایسی فضا قائم کر دی گئی کہ عوام میں یہ تاثر عام ہو گیا کہ ملک میں جتنے بھی حکمران آئے وہ سب کرپٹ تھے جبکہ عمران خان ملک کے لئے ایک ایسے مسیحا ہیں جو بیک وقت عالم اسلام کے رہنماء، ملک میں مسائل کا واحد حل ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف وفاق پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنی۔ بعد ازاں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی تحریک انصاف نے کامیابیاں سمیٹیں۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے قبل یہ دعوے منظر عام پر آئے کہ ان کا پیپر ورک مکمل ہے اور اسد عمر کی صورت میں معاشی انقلاب لائیں گے مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان یہ کہتے پائے گئے کہ تین ماہ تک تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہو کیا رہا ہے۔ خیر راولپنڈی ویسٹریج، کینٹ کے علاقہ سے منتخب ایم این اے اور وزیر عامر کیانی پر میڈیسن اسکینڈل سامنے آیا۔ اس کے بعد جہانگیر خان ترین، مخدوم خسرو بختیار، علیم خان وغیرہ کی کرپشن منظر عام پر آتی گئی اور ستم ظریفی یہ ہوئی کہ گزشتہ حکمرانوں کو چور کہنے والے عمران خان اور ان کے مشیران ان کرپٹ سیاستدانوں کا دفاع کرتے نظر آئے۔ ساڑھے تین سال میں تحریک انصاف حکومت کوئی ایسا منصوبہ دینے میں کامیاب نہ ہو سکی جس سے عام انسان کے حالات زندگی بہتر ہو سکیں۔ البتہ این جی اوز کے ساتھ مل کر لنگر کلچر کو فروغ دیا۔ ایم این ایز کو فنڈز جاری نہ کرنے کے ساتھ ساتھ اعظم خان کے رحم کرم پر چھوڑا تو اتحادی اور اپنے ایم این ایز نے عمران خان سے علیحدگی کی راہ اپنائی۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں تحریک انصاف حکومت انجام کو پہنچی تو پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا۔
اقتدار سے علیحدگی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی اور بالخصوص عمران خان کی کرپشن سامنے آنا شروع ہو گئی۔ فارن فنڈنگ پر کیس پہلے سے زیر سماعت تھا جس میں پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوگئی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والے حقائق توشہ خانہ سے متعلق سامنے آئے۔ جہاں سے عمران خان قیمتی تحائف لے اڑے۔ جب یہ معاملہ سامنے آیا تو عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اس کی تردید کے بجائے دلچسپ دلیلیں دینا شروع کر دیں۔ عمران خان کا موقف تھا کہ ان سے قبل توشہ خانہ سے تحائف 25%رقم کی ادائیگی پر لئے جاتے تھے جبکہ پی ٹی آئی حکومت نے اسے 50%کر دیا ہے۔ جبکہ ان کے وزیروں اور مشیروں نے پریس کانفرنسزمیں آصف علی زرداری اور محمد نواز شریف پر بھی توشہ خانہ سے گاڑیاں اور گھڑیاں چرانے کا الزام عائد کیا جس پر معاملہ متعلقہ فورم پر زیر سماعت ہے۔ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلہ میں عمران خان پر بدعنوانی کا الزام ثابت ہونے پر نااہل کر دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے سربراہان کو بیرون ملک سے ملنے والے تحائف ریاست کی ملکیت ہیں کیونکہ جب مہمان سربراہان پاکستان تشریف لاتے ہیں تو ریاست ان کو تحائف دیتی ہے نہ کہ ہمارے حکمران اپنی جیب سے دیتے ہیں۔ تو باہر سے ملنے والے تحائف 25%یا 50%قیمت پر کیوں؟ یہ لوٹ سیل بند ہونی چاہیے اور تحائف کی قیمت کا تعین اوپن ہونا چاہئے جس میں اپوزیشن کا نمائندہ بھی ہونا چاہئے۔اور اس متعین شدہ قیمت پر اگر کوئی خریدنا چاہے تو 100%قیمت ادا کریں اور اس پر واجب الادا ٹیکس کی رسید بھی عوام کے سامنے آنی چاہئے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس میں ابھی بہت کچھ ہونے والا ہے پھر کروڑوں پتی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو موٹر ویز پر ٹیکس استثنیٰ کس مد میں دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز عوامی خدمت کے جذبہ سے سیاست میں آئے ہیں تو انہیں مراعات واپس کرنی چاہیں۔ عوام کے خون پسینہ سے حاصل شدہ ٹیکسز کا پہلا حق اس ملک کے ٹیکس دہندہ کا ہے۔ اس کے بعد زراعت، صنعت، مزدور طبقہ کے لئے ہسپتال اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔ عوام سے التماس ہے کہ چور چور ہوتا ہے چاہے چھوٹی چوری کرے یا بڑا ڈاکہ مارے۔ عوام اندھی تقلید کے بجائے اقتدار کی ہوس میں استعمال کرنے والے سیاستدانوں کو مسترد کر دیں اور صرف ان کو منتخب کریں جو حقیقی معنوں میں آپ کے ترجمان ہو سکتے ہیں۔ خوشحال پاکستان کے خواب کی تعبیر کایہی واحد رستہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں