تحریر: شاہ محمد اعوان
مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو کم و بیش پچھتر سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا۔ ان دونوں علاقوں پر قبضہ اور غیروں کی آباد کاری کے حوالہ سے کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کشمیر میں مسلمان آباد ہیں اور یہاں ہندوں کو آباد کر کے مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کیا جا رہا جبکہ فلسطین میں آباد مسلمانوں کی نسل کشی کر کے یہودیوں کو آباد کیا گیا اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے علاقوں سے محروم کر دیا گیا۔ ان دونوں مسائل کے حوالہ سے مسلمان ملکوں کی نسبت مغربی غیر مسلم ملکوں کی پالیسی بڑی واضح ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ ڈنکے کی چوٹ پر اسرائیل اور بھارت کے ساتھ نہ صرف کھڑے ہوتے ہیں بلکہ ہر طرح کی امداد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ صرف فلسطین اور کشمیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی کونے میں بھی مسلمانوں کے خلاف مغرب ایک پیج پر ہے۔ دوسری جانب اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مراکش اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد بہت سی امیدیں لگا کر بیٹھے تھے۔ وسط ایشیائی ریاستوں میں آزربائیجان اسرائیل کی چاپلوسی میں سرفہرست ہے۔ مصر کی طرف سے غزہ کی ناکہ بندی بہت سے حوالوں سے سوالیہ نشان ہے۔ حالیہ کشیدگی کے دوران ایک موقع پر مصر کی جانب سے غزہ کی واحد رافع کراسنگ بند کر دی گئی جو بعد میں کھولی گئی۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کع فروغ دینے کے لئے کوشاں تھا غزہ سے حماس کے ایک ہزار سے زائد سرفروش پیراگلائیڈنگ، موٹڑ سائیکلوں اور پیدل اسرائیل میں داخل ہوتے ہیں۔ اس اسرائیل میں جس کی ٹیکنالوجی، ذراعت، سافٹ وئیر اور خفیۂ تنظیموں سے مسلمان ملک مرعوب ہو کر اسے تسلیم کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر حماس مجاہدین کا اسرائیلی بارڈر سے متصل حفا ظتی حصار توڑ کر اسرائیل میں داخل ہو کر ایک ڈیزرٹ فیسٹیول پر حملہ کرنا اور پھر اسرائیلی کے ان شہروں جو دراصل فلسطینیوں کے ہیں ان میں گلی کوچوں اور فوجی اڈوں پر لڑائی میں ہزاروں اسرائیلی یہودیوں کو واصل جہنم کیا۔ سو سے زائد کو یرغمال بنایا اور بعض شہادت نوش کر گئے اور باقی غازیان بر سر پیکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کا حمایت یافتہ بدمعاش اسرائیل جنگی طاقت میں حماس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے مگر یہاں معاملہ طاقت ایمانی کا ہے جس کے حوالہ سے حالیہ کاروائی تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔
حماس کی جانب سے اسرائیل کو دنیابھر میں جس شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس کا بڑا ردعمل یقینی تھا اور اسرائیل نے غزہ پر بڑی کاروائی شروع کی۔ ان سطور کے تحریر ہونے تک فلسطین میں اڑھائی ہزار سے زائد خواتین، بچے اور عام شہری شہید ہو چکے تھے۔ یہ تعداد شاید اصل سے کہیں کم ہے کیوں کہ غزہ میں بڑی بڑی عمارتیں اسرائیلی گولہ باری سے مسمار ہو چکیں نہ جانے کتنی لاشیں اس ملبہ میں ہوں گی۔ بجلی پانی اور خوراک کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ وغیرہ کی بندش سے غزہ پر بڑی آزمائش کا وقت ہے۔ ہسپتالوں میں ایندھن کی کمی سے جنریٹر نہ چلنے کے باعث طبی سہولیات کا فقدان یقینی ہے۔ ترکی کی جانب سے امدادی سامان مصر کی سرحد رافع کراسنگ سے بھیجنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے کھل کر حماس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ لبنان سے حزب اللہ بھی حماس کی حمایت میں سامنے آئی ہے۔ سعودی عرب نے مذاکرات کی حد تک اسرائیل سے قطع تعلق ضرور کیا ہے مگر جو توانا آواز اسلامی دنیا سے اٹھنی چاہئے تھی وہ ابھی تک نظر نہیں آرہی۔ پاکستان، ترکی اور تیونس کی جانب سے اسرائیلی بربریت کی مذمت کی گئی ہے۔ اسلامی ممالک میں عوامی سطح پر بھر پور غم و غصہ دیکھنے کو ملا ہے اور جمعہ کے روز بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ البتہ پانچ درجن اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کا جو رد عمل آنا چاہئے تھا وہ نہ آسکا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی ممالک کی خارجہ پالیسی کتنی خود مختار ہے۔ نجم الدین اربکان نے کیا خوب بات کی
”ڈیڑھ ارب ہو کر بھی ابابیلوں کے منتظر مسلمان کہ وہ آئیں اور اسی لاکھ اسرائیلیوں سے ہماری جان چھڑائیں۔ بخدا آج اگر ابابیل آئیں تو ؤہ اپنے کنکر یہودیوں کو نہیں، مسلمانوں کو ماریں!“۔
دراصل اسلامی ملکوں کی خارجہ پالیسی مغرب کے طابع ہے۔ معاشی مسائل میں گھرے اسلامی ملک ہر حوالہ سے مغرب کے غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ معاشی طور پر بھارت نے اپنی اہمیت اور مغرب کی چاپلوسی کی بدولت اپنی اہمیت منوانے میں کسی حد تک ضرور کامیابی حاصل کی ہے یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر بھی اسلامی ملکوں کی رائے تقسیم نظر آتی ہے۔ پاکستان دنیا میں شاید واحد ملک ہے جو پچھتر سال سے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر، جونا گڑھ اور مناودر کے حوالہ سے مقابلہ کر رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے آخری الفاظ سے لیکر آج تک پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے اور ان شاء اللہ کھڑا رہے گا۔ بدقسمتی سے حٓلیہ سیاسی و معاشی بحران اور افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملہ میں پاکستان اندرونی مسائل میں اس حد تک الجھ چکا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بھی متاثر ہوئی ہے۔
مسئلہ فلسطین کے حوالہ سے پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے اور پاکستان اپنا بھر پور کردار ادا کرتا رہے گا۔ کیونکہ سیاسی حکومتوں کے آنے جانے سے مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر پاکستان کا موقف وہی ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح نے جاں جاں آفرین کے حوالہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ بقول محترمہ فاطمہ جناح، آخری وقت قائد اعظم محمد علی جناح کے لبوں پر مہاجرین، کشمیر اور فلسطین کے الفاظ تھے جس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھا اور اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ پاکستان کے ہر غیرت مند شہری کا بھی فلسطین کے حوالہ سے موقف واضح ہے۔
روس اور چین مغربی بلاک کے سامنے اپنی افادیت قائم رکھنے کے لئے قدم جما رہے ہیں اسلامی ملک ون بیلٹ ون روڈ کی آڑ میں چین کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں مگر چین کی ترجیحات میں اپنی معاشی پالیسیاں اور عالمی منڈیوں تک محفوظ رسائی ہے۔ اس وقت یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ مسئلہ فلسطین ہو یا کشمیر اس سے نظریں پھیرنے سے عالمی سطح پر امن ممکن نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ تمام مسلمانوں کیلئے انتہائی اہم ہے۔ قبلہ اول کی حفاظت کے لئے تمام اسلامی ممالک کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسرائیل اور اس کے سہولت کاروں کو دنیا میں تنہا کرنا ہوں گا۔ اگر اسلامی ممالک نے اپنی غلامانہ خارجہ پالیسی پر نظر ثانی نہ کی تو ایک کے بعد ایک ملک کا فلسطین بننا بعید از قیاس نہیں۔
#طوفان_الاقصى_ #Palestine #palastine #FreePalestine #FreeGaza #غزة_الآن #جمعة_طوفان_الأقصى #طوفان_الاقصى_ #GazzeUnderAttack #Gaza #Gazagenocide #kashmir
818