168

*بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی: چیف جسٹس عمر عطا بندیال*

اسلام آباد:طیب خان پیر جمعرات ) سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کرسکتی ہے، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام ایم پی ایز نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنا دیا، سابق گورنر آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے، حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی آج بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کیلئے انتہائی معمولی سی بات ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لیکر جائیں۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیئے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے ؟ ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ارکان صوبائی اسمبلی عوام کے نمائندے ہیں، عوامی نمائندوں کو اسمبلی جانے سے روکیں گے تو وہ کیا کریں ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔ انہوں نے اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں ؟ جس پر وکیل صدر مملکت علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا ؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی ؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا ؟ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے ؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے، وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔

صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دے دیا۔ علی ظفر نے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔ علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ جس پر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں ؟ عدالت نے پوچھا کہ منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریت جماعت ہے، اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آؤٹ ہو جائے تو کیا ہوگا ؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ سیاسی معاملے کا جواب بطور صدر کے وکیل نہیں دے سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں