odesa ukrine russia war 328

یوکرین کا تیسرا بڑا شہراوڈیسا روس کا اگلا ہدف

یوکرین کے جنوب مغرب میں واقع شہر اوڈیسا جسے ‘بحیرہ اسود کا ہیرا’ بھی کہا جاتا ہے، اب روسی فوج کی جانب سے متوقع حملے کے لیے تیاری کر رہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ یوکرین کا تیسرا سب سے بڑا شہر اب روسی افواج کا اگلا ہدف ہوگا۔
روسی بحریہ نے اوڈیسا کے مضافات میں شیلنگ شروع کر دی ہے جو کہ ان کوششوں کا حصہ ہے کہ یوکرین کو بحیرہ اسود سے الگ کر دیا جائے۔
یوکرینی صدر ولودیمر زیلنسکی نے کہا ہے کہ دشمن فوج نے خطے میں ‘ساحل پر بمباری’ کر دی ہے۔ اوڈیسا کے مئیر گیناڈی ترخانوو نے تنبیہ کی ہے کہ روسی فوج شہر کو تین جانب سے گھیر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک مالڈووا کے خطے ٹرانسزٹریا جو کہ روسی نواز علیحدگی پسند افراد کے زیر انتظام ہے، وہاں موجود روسی فوج اوڈیسا کی جانب بڑھ سکتی ہے اور اس کی مدد سے شہر کا یوکرین کے باقی حصوں سے رابطہ منقطع کر سکتی ہے۔
یوکرین کے جنوب مغربی حصے میں واقع ٹرانسزٹریا کا علاقہ بین الاقوامی طور پر مالڈووا کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں کا نظام ماسکو کی حمایت یافتہ یکومت کے پاس ہے۔
مئیر گیناڈی ترخانوو کے مطابق سمندر کے راستے بھی اوڈیسا پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
یوکرین کے تیسرے سب سے بڑے شہر اور اہم بندرگاہ ہونے کی حیثیت سے اوڈیسا ملکی معیشت کے لیے انتہائی اہم شہر ہے۔
یوکرین کے سابق اسسٹنٹ وزیر دفاع آندرئے رئژنکو نے بی بی سی کو بتایا کہ اوڈیسا یوکرین کا ‘میری ٹائم دارالحکومت’ ہے اور یوکرین کے کل جی ڈی پی کے 20 فیصد کا ذمہ دار ہے۔‘
جنگ سے قبل یوکرین کی اہم ترین برآمدات جیسے اناج، غلہ، معدنیات وغیرہ سب اوڈیسا اور اس کے قریب واقع چھوٹی بندرگاہوں سے گزر کر جاتا ہے۔
سکیورٹی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر سدارتھ کوشل کہتے ہیں کہ یوکرین کی 70 فیصد بحری تجارت اوڈیسا پر انحصار کرتی ہے۔
اس کے علاوہ اوڈیسا ایک اہم تاریخی اور سیاحتی مقام بھی ہے اور وہاں اکثر روسی سیاح پائے جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں